Monday, November 24, 2014
Sunday, November 23, 2014
ماں کا خواب
ميں سوئی جو اک شب تو ديکھا يہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
يہ ديکھا کہ ميں جا رہي ہوں کہيں
اندھيرا ہے اور راہ ملتي نہيں
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھي
تو ديکھا قطار ايک لڑکوں کي تھي
زمرد سي پوشاک پہنے ہوئے
ديے سب کے ہاتھوں ميں جلتے ہوئے
وہ چپ چاپ تھے آگے پيچھے رواں
خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں
اسي سوچ ميں تھي کہ ميرا پسر
مجھے اس جماعت ميں آيا نظر
وہ پيچھے تھا اور تيز چلتا نہ تھا
ديا اس کے ہاتھوں ميں جلتا نہ تھا
کہا ميں نے پہچان کر ، ميري جاں!
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں!
جدائي ميں رہتي ہوں ميں بے قرار
پروتي ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
نہ پروا ہماري ذرا تم نے کي
گئے چھوڑ ، اچھي وفا تم نے کي
جو بچے نے ديکھا مرا پيچ و تاب
ديا اس نے منہ پھير کر يوں جواب
رلاتي ہے تجھ کو جدائي مري
نہيں اس ميں کچھ بھي بھلائي مري
يہ کہہ کر وہ کچھ دير تک چپ رہا
ديا پھر دکھا کر يہ کہنے لگا
سمجھتي ہے تو ہو گيا کيا اسے؟
ترے آنسوئوں نے بجھايا اسے
علامہ اقبال ؒ کی عظمت
علامہ اقبال ؒ کی عظمت
تحریر محمد ثقلین خان سواتی ...........
علامہ محمد اقبال نابغہ روزگاراور ہمہ گیر شخصیت تھے۔ وہ بیسویں صدی کے سب سے عظیم مسلم مفکر، شاعر مشرق اور صاحب بصیرت سیاسی رہنما تھے۔ قدرت نے ان کو بہت سی صلاحیتوں سے نواز تھا۔ تاریخ کے اوراق انکی بصیرت، فراست، معاملہ فہمی اور دوراندیشی نیز قوم سے انکی خیرخواہی کی روشنی سے جگمگا رہے ہیں۔ انکے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ شاعر مشرق اور مفکر اسلام تو تھے لیکن زندگی بھر عملی سیاست سے الگ تھلگ اور گوشہ نشین رہے۔ یہ تاثر درست نہیں۔ وہ نہ صرف اپنے عہد کی سیاسی تحریکوں کو انکے صحیح پس منظر میں سمجھتے تھے بلکہ سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیتے رہے۔ درحقیقت سیاست انکی زندگی کا ایک اہم اور روشن باب ہے۔ انہوں نے قیام پاکستان سے سترہ برس پیشتر ہی اپنی بصیرت سے مستقبل کے دھندلے نقوش میں ایک آزاد اسلامی مملکت کا نقشہ ابھرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
علامہ اقبال کے انتقال پر قائداعظم نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ’’مجھے سر محمد اقبال کی وفات کی خبر سن کر سخت رنج ہوا۔ وہ عالمی شہرت کے ایک نہایت ممتاز شاعر تھے۔ ان کی شہرت اور انکے کام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ملک اور مسلمانوں کی انہوں نے اتنی زیادہ خدمات انجام دی ہیں کہ انکے ریکارڈ کا مقابلہ عظیم ترین ہندوستانی کے ریکارڈ سے کیا جا سکتا ہے۔ ابھی حال ہی تک وہ پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے صدر تھے جبکہ غیرمتوقع علالت نے انہیں استعفیٰ پر مجبور کر دیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی پالیسی اور پروگرام کے حامی تھے۔ میرے لئے وہ ایک رہنما بھی تھے، دوست بھی اور فلسفی بھی۔ تاریک ترین لمحوں میں جن سے مسلم لیگ کو گزرنا پڑا۔ وہ چٹان کی طرح قائم رہے اور ایک لمحے کیلئے بھی متزلزل نہیں ہوئے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ صرف تین دن قبل انہوں نے اس کامل اتحاد کا ذکر سنا ہو گا جو کلکتہ میں پنجاب کے مسلم قائدین کے مابین ہو گیا اور آج میں فخر و مباہات کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانان پنجاب مکمل طور پر مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور اسکے جھنڈے تلے آ چکے ہیں جو یقیناً سر محمد اقبال کیلئے عظیم ترین اطمینان کا واقعہ تھا۔ اس مفارقت میں میری نہایت مخلصانہ اور گہری ہمدردیاں انکے خاندان کے ساتھ ہیں۔ اس نازک وقت میں ہندوستان کو اور خصوصاً مسلمانوں کو ایک عظیم نقصان پہنچا ہے۔‘‘
تحریر محمد ثقلین خان سواتی ...........
علامہ محمد اقبال نابغہ روزگاراور ہمہ گیر شخصیت تھے۔ وہ بیسویں صدی کے سب سے عظیم مسلم مفکر، شاعر مشرق اور صاحب بصیرت سیاسی رہنما تھے۔ قدرت نے ان کو بہت سی صلاحیتوں سے نواز تھا۔ تاریخ کے اوراق انکی بصیرت، فراست، معاملہ فہمی اور دوراندیشی نیز قوم سے انکی خیرخواہی کی روشنی سے جگمگا رہے ہیں۔ انکے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ شاعر مشرق اور مفکر اسلام تو تھے لیکن زندگی بھر عملی سیاست سے الگ تھلگ اور گوشہ نشین رہے۔ یہ تاثر درست نہیں۔ وہ نہ صرف اپنے عہد کی سیاسی تحریکوں کو انکے صحیح پس منظر میں سمجھتے تھے بلکہ سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیتے رہے۔ درحقیقت سیاست انکی زندگی کا ایک اہم اور روشن باب ہے۔ انہوں نے قیام پاکستان سے سترہ برس پیشتر ہی اپنی بصیرت سے مستقبل کے دھندلے نقوش میں ایک آزاد اسلامی مملکت کا نقشہ ابھرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
علامہ اقبال کے انتقال پر قائداعظم نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ’’مجھے سر محمد اقبال کی وفات کی خبر سن کر سخت رنج ہوا۔ وہ عالمی شہرت کے ایک نہایت ممتاز شاعر تھے۔ ان کی شہرت اور انکے کام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ملک اور مسلمانوں کی انہوں نے اتنی زیادہ خدمات انجام دی ہیں کہ انکے ریکارڈ کا مقابلہ عظیم ترین ہندوستانی کے ریکارڈ سے کیا جا سکتا ہے۔ ابھی حال ہی تک وہ پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے صدر تھے جبکہ غیرمتوقع علالت نے انہیں استعفیٰ پر مجبور کر دیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی پالیسی اور پروگرام کے حامی تھے۔ میرے لئے وہ ایک رہنما بھی تھے، دوست بھی اور فلسفی بھی۔ تاریک ترین لمحوں میں جن سے مسلم لیگ کو گزرنا پڑا۔ وہ چٹان کی طرح قائم رہے اور ایک لمحے کیلئے بھی متزلزل نہیں ہوئے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ صرف تین دن قبل انہوں نے اس کامل اتحاد کا ذکر سنا ہو گا جو کلکتہ میں پنجاب کے مسلم قائدین کے مابین ہو گیا اور آج میں فخر و مباہات کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانان پنجاب مکمل طور پر مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور اسکے جھنڈے تلے آ چکے ہیں جو یقیناً سر محمد اقبال کیلئے عظیم ترین اطمینان کا واقعہ تھا۔ اس مفارقت میں میری نہایت مخلصانہ اور گہری ہمدردیاں انکے خاندان کے ساتھ ہیں۔ اس نازک وقت میں ہندوستان کو اور خصوصاً مسلمانوں کو ایک عظیم نقصان پہنچا ہے۔‘‘
علامہ اقبال ؒ کی عظمت |
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
پیدائشی
نام: محمد اقبال
تخلص: اقبال
ولادت: 9 نومبر 1877ء، سیالکوٹ
ابتدا سیالکوٹ
وفات: 21 اپریل 1938ء، لاہور
اصناف ادب شاعری
نثر
ذیلی اصناف نظم
غزل
معروف تصانیف بانگ درا
بال جبریل
ضرب کلیم
پیام مشرق
علامہ اقبال پاکستان کے قومی شاعر ہیں۔ 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صاحب کا نام شیخ نور محمد تھا جو کشمیری برہمنوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ شیخ نور محمد بڑے سچے ، دین دار انسان تھے۔
:تعلیم
علامہ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیے۔ زمانہ طالبعلمی میں انھیں میر حسن جیسے استاد ملے جنہوں نے آپ کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ اور ان کے اوصاف خیالات کے مطابق آپ کی صحیح رہنمائی کی۔ شعر و شاعری کا شوق بھی آپ کو یہیں پیدا ہوا۔ اور اس شوق کو فروغ دینے میں مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔
:اعلیٰ تعلیم
ایف اے کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ کالج سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے یہاں آپ کو پرفیسرآرنل ڈ جیسے فاضل شفیق استاد مل گئے جنہوں نے اپنے شاگرد کی رہنمائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
:سفر یورپ
میں علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی ۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
:تدریس اور وکالت
ابتداء میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعروشاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکیوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ 1922ء میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔
:سیاست
ء میں آپ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر چنے گئے۔ آپ آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ
سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے۔ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے آپ کا الہ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔ 1931ء میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کرکے مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ آپ کی تعلیمات اور قائداعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21 اپریل 1938میں علامہ انتقال کر گئے تھے۔ لیکن ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔ جس نے پاکستان کا تصور پیش کرکے برصغیر کے مسلمانوں میں جینے کی ایک نئی آس پیدا کی۔
:شاعری
شاعر مشرق علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان عالم اسےبڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کے کئی کتابوں کے انگریزی ، جرمنی ، فرانسیسی، چینی ، جاپانی اور دوسرے زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ جس سے بیرون ملک بھی لوگ آپ کے متعرف ہیں۔ بلامبالغہ علامہ اقبال ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں۔
تخلص: اقبال
ولادت: 9 نومبر 1877ء، سیالکوٹ
ابتدا سیالکوٹ
وفات: 21 اپریل 1938ء، لاہور
اصناف ادب شاعری
نثر
ذیلی اصناف نظم
غزل
معروف تصانیف بانگ درا
بال جبریل
ضرب کلیم
پیام مشرق
علامہ اقبال پاکستان کے قومی شاعر ہیں۔ 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صاحب کا نام شیخ نور محمد تھا جو کشمیری برہمنوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ شیخ نور محمد بڑے سچے ، دین دار انسان تھے۔
:تعلیم
علامہ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیے۔ زمانہ طالبعلمی میں انھیں میر حسن جیسے استاد ملے جنہوں نے آپ کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ اور ان کے اوصاف خیالات کے مطابق آپ کی صحیح رہنمائی کی۔ شعر و شاعری کا شوق بھی آپ کو یہیں پیدا ہوا۔ اور اس شوق کو فروغ دینے میں مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔
:اعلیٰ تعلیم
ایف اے کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ کالج سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے یہاں آپ کو پرفیسرآرنل ڈ جیسے فاضل شفیق استاد مل گئے جنہوں نے اپنے شاگرد کی رہنمائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
:سفر یورپ
میں علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی ۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
:تدریس اور وکالت
ابتداء میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعروشاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکیوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ 1922ء میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔
:سیاست
ء میں آپ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر چنے گئے۔ آپ آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ
سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے۔ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے آپ کا الہ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔ 1931ء میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کرکے مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ آپ کی تعلیمات اور قائداعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21 اپریل 1938میں علامہ انتقال کر گئے تھے۔ لیکن ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔ جس نے پاکستان کا تصور پیش کرکے برصغیر کے مسلمانوں میں جینے کی ایک نئی آس پیدا کی۔
:شاعری
شاعر مشرق علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان عالم اسےبڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کے کئی کتابوں کے انگریزی ، جرمنی ، فرانسیسی، چینی ، جاپانی اور دوسرے زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ جس سے بیرون ملک بھی لوگ آپ کے متعرف ہیں۔ بلامبالغہ علامہ اقبال ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں۔
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال |
Subscribe to:
Posts (Atom)