Sunday, November 23, 2014

ماں کا خواب

ماں کا خواب
ماں کا خواب


ميں سوئی جو اک شب تو ديکھا يہ خواب 

بڑھا اور جس سے مرا اضطراب 
يہ ديکھا کہ ميں جا رہي ہوں کہيں 
اندھيرا ہے اور راہ ملتي نہيں 
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال 
قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال 
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھي 
تو ديکھا قطار ايک لڑکوں کي تھي 
زمرد سي پوشاک پہنے ہوئے 
ديے سب کے ہاتھوں ميں جلتے ہوئے 
وہ چپ چاپ تھے آگے پيچھے رواں 
خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں 
اسي سوچ ميں تھي کہ ميرا پسر 
مجھے اس جماعت ميں آيا نظر 
وہ پيچھے تھا اور تيز چلتا نہ تھا 
ديا اس کے ہاتھوں ميں جلتا نہ تھا 
کہا ميں نے پہچان کر ، ميري جاں
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں
جدائي ميں رہتي ہوں ميں بے قرار 
پروتي ہوں ہر روز اشکوں کے ہار 
نہ پروا ہماري ذرا تم نے کي 
گئے چھوڑ ، اچھي وفا تم نے کي 
جو بچے نے ديکھا مرا پيچ و تاب 
ديا اس نے منہ پھير کر يوں جواب 
رلاتي ہے تجھ کو جدائي مري 
نہيں اس ميں کچھ بھي بھلائي مري 
يہ کہہ کر وہ کچھ دير تک چپ رہا 
ديا پھر دکھا کر يہ کہنے لگا 
سمجھتي ہے تو ہو گيا کيا اسے؟ 
ترے آنسوئوں نے بجھايا اسے


No comments:

Post a Comment

thanks for your feed back