علامہ اقبال ؒ کی عظمت
تحریر محمد ثقلین خان سواتی ...........
علامہ محمد اقبال نابغہ روزگاراور ہمہ گیر شخصیت تھے۔ وہ بیسویں صدی کے سب سے عظیم مسلم مفکر، شاعر مشرق اور صاحب بصیرت سیاسی رہنما تھے۔ قدرت نے ان کو بہت سی صلاحیتوں سے نواز تھا۔ تاریخ کے اوراق انکی بصیرت، فراست، معاملہ فہمی اور دوراندیشی نیز قوم سے انکی خیرخواہی کی روشنی سے جگمگا رہے ہیں۔ انکے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ شاعر مشرق اور مفکر اسلام تو تھے لیکن زندگی بھر عملی سیاست سے الگ تھلگ اور گوشہ نشین رہے۔ یہ تاثر درست نہیں۔ وہ نہ صرف اپنے عہد کی سیاسی تحریکوں کو انکے صحیح پس منظر میں سمجھتے تھے بلکہ سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیتے رہے۔ درحقیقت سیاست انکی زندگی کا ایک اہم اور روشن باب ہے۔ انہوں نے قیام پاکستان سے سترہ برس پیشتر ہی اپنی بصیرت سے مستقبل کے دھندلے نقوش میں ایک آزاد اسلامی مملکت کا نقشہ ابھرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
علامہ اقبال کے انتقال پر قائداعظم نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ’’مجھے سر محمد اقبال کی وفات کی خبر سن کر سخت رنج ہوا۔ وہ عالمی شہرت کے ایک نہایت ممتاز شاعر تھے۔ ان کی شہرت اور انکے کام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ملک اور مسلمانوں کی انہوں نے اتنی زیادہ خدمات انجام دی ہیں کہ انکے ریکارڈ کا مقابلہ عظیم ترین ہندوستانی کے ریکارڈ سے کیا جا سکتا ہے۔ ابھی حال ہی تک وہ پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے صدر تھے جبکہ غیرمتوقع علالت نے انہیں استعفیٰ پر مجبور کر دیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی پالیسی اور پروگرام کے حامی تھے۔ میرے لئے وہ ایک رہنما بھی تھے، دوست بھی اور فلسفی بھی۔ تاریک ترین لمحوں میں جن سے مسلم لیگ کو گزرنا پڑا۔ وہ چٹان کی طرح قائم رہے اور ایک لمحے کیلئے بھی متزلزل نہیں ہوئے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ صرف تین دن قبل انہوں نے اس کامل اتحاد کا ذکر سنا ہو گا جو کلکتہ میں پنجاب کے مسلم قائدین کے مابین ہو گیا اور آج میں فخر و مباہات کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانان پنجاب مکمل طور پر مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور اسکے جھنڈے تلے آ چکے ہیں جو یقیناً سر محمد اقبال کیلئے عظیم ترین اطمینان کا واقعہ تھا۔ اس مفارقت میں میری نہایت مخلصانہ اور گہری ہمدردیاں انکے خاندان کے ساتھ ہیں۔ اس نازک وقت میں ہندوستان کو اور خصوصاً مسلمانوں کو ایک عظیم نقصان پہنچا ہے۔‘‘
تحریر محمد ثقلین خان سواتی ...........
علامہ محمد اقبال نابغہ روزگاراور ہمہ گیر شخصیت تھے۔ وہ بیسویں صدی کے سب سے عظیم مسلم مفکر، شاعر مشرق اور صاحب بصیرت سیاسی رہنما تھے۔ قدرت نے ان کو بہت سی صلاحیتوں سے نواز تھا۔ تاریخ کے اوراق انکی بصیرت، فراست، معاملہ فہمی اور دوراندیشی نیز قوم سے انکی خیرخواہی کی روشنی سے جگمگا رہے ہیں۔ انکے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ شاعر مشرق اور مفکر اسلام تو تھے لیکن زندگی بھر عملی سیاست سے الگ تھلگ اور گوشہ نشین رہے۔ یہ تاثر درست نہیں۔ وہ نہ صرف اپنے عہد کی سیاسی تحریکوں کو انکے صحیح پس منظر میں سمجھتے تھے بلکہ سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیتے رہے۔ درحقیقت سیاست انکی زندگی کا ایک اہم اور روشن باب ہے۔ انہوں نے قیام پاکستان سے سترہ برس پیشتر ہی اپنی بصیرت سے مستقبل کے دھندلے نقوش میں ایک آزاد اسلامی مملکت کا نقشہ ابھرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
علامہ اقبال کے انتقال پر قائداعظم نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ’’مجھے سر محمد اقبال کی وفات کی خبر سن کر سخت رنج ہوا۔ وہ عالمی شہرت کے ایک نہایت ممتاز شاعر تھے۔ ان کی شہرت اور انکے کام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ملک اور مسلمانوں کی انہوں نے اتنی زیادہ خدمات انجام دی ہیں کہ انکے ریکارڈ کا مقابلہ عظیم ترین ہندوستانی کے ریکارڈ سے کیا جا سکتا ہے۔ ابھی حال ہی تک وہ پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے صدر تھے جبکہ غیرمتوقع علالت نے انہیں استعفیٰ پر مجبور کر دیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی پالیسی اور پروگرام کے حامی تھے۔ میرے لئے وہ ایک رہنما بھی تھے، دوست بھی اور فلسفی بھی۔ تاریک ترین لمحوں میں جن سے مسلم لیگ کو گزرنا پڑا۔ وہ چٹان کی طرح قائم رہے اور ایک لمحے کیلئے بھی متزلزل نہیں ہوئے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ صرف تین دن قبل انہوں نے اس کامل اتحاد کا ذکر سنا ہو گا جو کلکتہ میں پنجاب کے مسلم قائدین کے مابین ہو گیا اور آج میں فخر و مباہات کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانان پنجاب مکمل طور پر مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور اسکے جھنڈے تلے آ چکے ہیں جو یقیناً سر محمد اقبال کیلئے عظیم ترین اطمینان کا واقعہ تھا۔ اس مفارقت میں میری نہایت مخلصانہ اور گہری ہمدردیاں انکے خاندان کے ساتھ ہیں۔ اس نازک وقت میں ہندوستان کو اور خصوصاً مسلمانوں کو ایک عظیم نقصان پہنچا ہے۔‘‘
علامہ اقبال ؒ کی عظمت |
No comments:
Post a Comment
thanks for your feed back